Posts

Showing posts from May, 2022

Free & Fair Elections in Pakistan

 1970ء کے الیکشن کے بعد پاکستان میں کبھی بھی  free and fair الیکش نہیں ہوئے.  اگر ہو جائیں تو بعد میں ان کے  نتائج میں حسبِ ضرورت ردو بدل کر دیا جاتا ہے.  تاکہ من پسند افراد کو اقتدار منتقل کیا جا سکے.  یہی وجہ ہے کہ  پاکستان میں کبھی بھی جمہوری حکومت قائم نہیں ہو سکی.  بلکہ مل ملا کر  موزوں افراد کو اقتدار دے دیا جاتا ہے.  اس کھیل میں ملکی ترقی اور خوشحالی کو پس پشت ڈال کر صرف حکومت چلانے اور اپنے ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا رہا ہے.  اب تو یہ بات پوری دنیا کے ممالک کے سامنے عیاں ہو گئی ہے کہ  پاکستانی سیاست دانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے.  کسی بھی ملک کی قیادت اپنے ملک اور اپنی home land  سے بے وفا نہیں ہوتی.  لیکن پاکستان کی گزشتہ تاریخ بتاتی ہے کہ  پاکستان کے صاحب اختیار سیاستدانوں نے قومی مفاد کا تحفظ نہیں کیا.  اس کے نتیجے میں 1948ء  میں ذوالفقار علی بھٹو کے والد  سر شاہ نواز بھٹو کی نا اہلی کی وجہ سے  جونا گڑھ و منادر جو پاکستان کی حصہ تھا.  اس پر انڈیا...

Wife till last breath

 🦋۩ஜ▬▬▬▬▬▩ 👈 *وہ آخری سانس تک میری بیوی ہے* 👉 ایک 50سالہ بوڑھا انگوٹھے پر مرہم پٹی کرانے آیا وہ بار بار جلدی کرنے کا کہہ رہا تھا، ڈاکڑ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا بیٹا میں آٹھ بجے دوسرے ہسپتال پہنچتا ہوں۔ آندھی ہو، سیلاب ہو، بارش ہو، سردی ہو، گرمی ہو، میں کبھی لیٹ نہیں ہوا اور آج بھی نہیں ہونا چاہتا۔ ڈاکٹر نے پوچھا بابا جی ہسپتال میں آپ کا کون ہے؟ بابا جی نے بتایا کہ میں روز صبح آٹھ بجے ہسپتال پہنچ کر اپنی بیوی کو اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرواتا ہوں وہ 5 سال سے بیمار ہے، ڈاکڑ نے پوچھا اسے کیا ہوا؟ بابا جی بولے، اس کی یاداشت کھو گئی ہے وہ سب کچھ بھول گئی ہے اپنا نام تک اسے یاد نہیں، کسی کو بھی نہیں پہچانتی اور بولنا بھی چھوڑ دیا  ہے۔ ڈاکٹر نے پوچھا جب آپ کی بیوی آپ کو نہیں پہچان سکتی وہ آپ میں اور وارڈ بوائے میں کوئی فرق نہیں کر سکتی ہے تو آپ روز آٹھ بجے یہ تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں۔ باباجی بولے، میں اس کا قرض دار ہوں، 50 برس میں اس نے مجھے روزانہ آٹھ بجے ناشتہ کروایا تھا، ہمارے ہاں نوکروں اور خادموں کی کمی نہیں تھی مگر سردی، گرمی، بارش ہو یا آندھی ہو وہ ساڑھے چھ بجے جاگتی اور اپنے ہاتھ...

Quality Education

 *کوالٹی ایجوکیشن چاٸنہ اپنے پراٸمری اور سکینڈری سکول کےبچوں کو جنرل لیبر سکلز یعنی مزدوری کرنے کی مہارتیں جس میں میں گھر کے انتظام کے متعلق جیسا کہ صفاٸی کرنا، کھانا پکانا ، چیزوں کو منظم کرنے اور سٹور کرنے کے علاوہ  ذرعی مہارتیں اور مینیوفیکچرنگ مہارتیں شامل ہیں سکھا رہا ہے۔* *جسکا مقصد بچوں کو کتابی علم کے علاوہ مینول لیبر اور عملی کام کرنے کی ترغیب دینا شامل ہے ۔* *اسی تعلیم کو دنیا کوالٹی ایجوکیشن کہتی ہے ۔* *تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے بچے کھیتوں میں جاکر خود کام کر رہے ہیں تھریشر پر چاول نکال رہے ہیں کھانا پکانا سیکھ رہے ہیں فیکٹری میں کام کر رہے ہیں ۔* *اس کے برعکس تیسری دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شامل پاکستان یعنی ہمارے ہاں دیکھا جاۓ تو ہم کاہل اور ڈگری ہولڈر بے کار ترین نسل تیار کر رہے ہیں ۔* *پڑھاٸی کرنے والے بچے کسی کام کو ہاتھ  نہیں لگاتے نتیجہ کے طور پر ساری عمر بےکار ہی رہتے ہیں کاغذی ڈگری حاصل کر کے تعویذ بنا کر گلے میں لٹکا کر نوکری کیلئے پھرتے رہتے ہیں اگر نوکری نہ ملے تو مزدوری کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں آخر کار آعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے زعم میں خود...

Comfort Zone

 کمفرٹ زون سے نکلنے کی کوشش کریں* کسی گاوں میں تین بھائی رہتے تھے. ان کے گھر پر پھل کا ایک درخت تھا جسکا پھل بیچ کر یہ دو وقت کی روٹی حاصل کرتے تھے. ایک دن کوئی اللہ والا انکا مہمان بنا. اُس دن بڑا بھائی مہمان کے ساتھ کھانے کیلئے بیٹھ گیا اور دونوں چھوٹے بھائی یہ کہہ کر شریک نہ ہوئے کہ ان کو بھوک نہیں ہے۔ مہمان کا اکرام بھی ہو گیا اور کھانے کی کمی کا پردہ بھی رہ گیا آدھی رات کو مہمان اٹھا جب تینوں بھائی سو رہے تھے ایک آری سے وہ درخت کاٹا اور اپنی اگلی منزل کی طرف نکل گیا. صبح اس گھر میں کہرام مچ گیا سارا اہل محلہ اس مہمان کو کوس رہا تھا جس نے اس گھر کی واحد آمدن کو کاٹ کر پھینک دیا تھا. چند سال بعد وہی مہمان دوبارہ اس گاوں میں آیا تو دیکھا اس بوسیدہ گھر پر جہاں وہ مہمان ہوا تھا اب عالیشان گھر بن گیا تھا ان کے دن بدل گئے تھے. تینوں بھائیوں نے درخت کے پھل نکلنے کے انتظار کی اُمید ختم ہونے پر زندگی کیلئے دوسرے اسباب کی تلاش شروع کر دی تھی اور اللہ نے ان کو برکت عطا فرما دی. جب بھی ہم پر دنیا میں اسباب کا کوئی دروازہ بند ہو جاتا ہے تو ہماری بھی زندگی میں ایک زلزلہ سا آجاتا ہے ہم سمجھتے...

Zip your lips or speak as like this

 رومی نے گفتگو کے تین دروازے بتائے تھے !  آپ کہا کرتے تھے !  آپ کا کلام جب تک ان تین دروازوں سے گزر نہ جائے آپ اس وقت تک اپنا منہ نہ کھولیں !  آپ اپنی گفتگو کو سب سے پہلے سچ کے دروازے سے گزاریں  اپنے آپ سے پوچھیں آپ جو بولنے لگے ہیں کیا وہ سچ ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں آئے تو پھر آپ اس کے بعد اپنے کلام کو اہمیت کے دروازے سے گزاریں.  آپ اپنے آپ سے پوچھیں! آپ جو کہنے جا رہے ہیں کیا وہ ضروری ہے؟ اگر جواب ہاں آئے تو آپ اس کے بعد اپنے کلام کو مہربانی کے دروازے سے گزاریں  آپ اپنے آپ سے پوچھیں ! کیا آپ کے الفاظ نرم اور لہجہ مہربان ہے؟ اگر لفظ نرم اور لہجہ مہربان نہ ہو تو آپ خاموشی اختیار کریں خواہ آپ کے سینے میں کتنا ہی بڑا سچ کیوں نہ ہو اور آپ کا کلام خواہ کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو ____! مولانا کی ذات میں یہ تینوں دروازے حضرت شمس تبریز نے کھولے تھے ___!!! شاید یہی وجہ ہے مولانا نے حضرت شمس تبریز سے ملاقات کے بعد کبھی کوئی ایسا لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا جو نرم نہ ہو جو ضروری نہ ہو اور جو سچ نہ ہو ___!!!